یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں۔ بائیبل اور تَلْمود، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوتِ حق کے بقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے، اور بجاۓ خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت، ان کی تبلیغ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو۔ لیکن مغربی مستشرقین، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون ’’موسیٰ‘‘ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے : |