اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۴١

 یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں۔ بائیبل اور تَلْمود، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوتِ حق کے بقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے، اور بجاۓ خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت، ان کی تبلیغ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو۔ لیکن مغربی مستشرقین، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو  سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا  آف اسلام میں مضمون ’’موسیٰ‘‘ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے :
’’قرآن کی یہ کہانی  کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، پوری طرح واضح نہیں ہے (سورہ40 آیت 28)۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصّے سے کرنا چاہیے جو ہگّا دا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھر و نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ‘‘؟
گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی  ڈالنے ہیں۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جاۓ کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جاۓ کہ ہَگّا دا  میں یتھروکا جو  قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے سن لیا ہو گا، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا۔ یہ ہے ’’ علمی تحقیق‘‘ کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے۔