اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۳۷

 یعنی ایسی صریح علامات کے ساتھ جن سے یہ امر مشتبہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ ربّ العٰلمین کی طاقت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی علامات تھیں جن کو یہاں ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی سند قرار دیا جا رہا ہے۔ اول تا یہ عجیب بات تھی کہ جو شخص چند سال پہلے فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو گیا تھا اور جس کے وارنٹ نکلے ہوۓ تھے وہ اچانک ایک لاٹھی لیے ہوۓ سیدھا فرعون کے بھرے دربار میں درّانہ چلا آتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ بادشاہ اور اس کے اعیانِ سلطنت کو مخاطب کر کے دعوت دیتا ہے کہ وہ اسے اللہ ربّ العا لمین کا نمائندہ تسلیم کر کے اس کی ہدایات پر عمل کریں، اور کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بری طرح غلامی کے جوتے تلے پس رہی تھی کہ اگر الزام قتل کی بنا پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا تو اس بات کا کوئی اندیشہ نہ تھا کہ ان کی قوم بغاوت تو در کنار، احتجاج ہی کے لیے زبان کھول سکے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا اور یدِ بیضاء  کے معجزے دیکھنے سے بھی پہلے فرعون اور اس کے اہل دربار محض حضرت موسیٰ کی آمد ہی سے مرعوب ہو چکے تھے اور پہلی نظر ہی میں انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی طاقت کے بل بوتے پر آیا ہے۔ پھر جو عظیم الشان معجزے پے درپے ان کے ہاتھ سے صادر ہوۓ ان میں سے ہر ایک یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ یہ جادو کا نہیں، خدائی طاقت ہی کا کرشمہ ہے۔ آخر کس جادو کے زور سے ایک لاٹھی فی الواقع ازدہا بن سکتی ہے؟ یا ایک پورے ملک میں قحط پڑ سکتا ہے؟ یا لاکھوں مربع میل کے علاقے میں ایک نوٹس پر طرح طرح کے طوفان آ سکتے ہیں اور ایک نوٹس پر وہ ختم ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام ذمّہ دار لوگ، زبان سے چاہے انکار کرتے  رہے ہوں، مگر دل ان کے پوری طرح جان چکے  تھے کہ حضرت موسیٰ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوۓ ہیں۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ص 65 تا 68۔ جلد سوم، ص 100 تا 108۔ 486 تا 494۔ 560)۔