اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر١١۰

 مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) وہ حق ہیں یا نہیں، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ یہ معجزات کے  مطالبے کا تیسرا جواب ہے۔ یہ جواب بھی اس سے پہل ے متعدد مقامات پر قرآن  میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات 537۔ 538۔ جلد دوم 315۔447۔تا 449۔ جلد سوم، 477 تا 479)۔
زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں، خصوصاً گاۓ، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ اور گھوڑے، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خدم بن جاتے ہیں، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان پر سواری کرتا ہے۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی، لسّی،مکھن، گھی، کھویا، پنیر، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے۔ ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر، ہر چیز اسکے کام آتی ہے۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھاۓ؟
پھر زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق ربّ رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے۔
اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خداۓ حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا۔