اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۴۲

 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت، مال و دولت کے ضیاع، اور اعزّہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھ تنگ کر رہا ہے ، وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مجھ  اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے ، اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں ۔ حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے ، ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی  طاقت عطا فرمائی ہے ، یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے ۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوبؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّ ا حِمِیْنَ، ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے ۔‘‘