سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس جگہ اصل مقصد یہی واقعہ بیان کرنا ہے اور پچھلی آیات اسی کے لیے بطور تمہید ارشاد ہوئی ہیں ۔ جس طرح پہلے حضرت داؤد کی تعریف کی گئی،پھر اس واقعہ کا ذکر کیا گیا جس میں وہ مبتلائے فتنہ ہو گئے تھے ، پھر بتایا گیا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ایسے محبوب بندے کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہ چھوڑا، پھر ان کی یہ شان دکھائی گئی کہ فتنے پر متنبہ ہوتے ہی وہ تائب ہو گئے اور اللہ کے آگے جھک کر انہوں نے اپنے اس فعل سے رجوع کر لیا، اسے طرح یہاں بھی ترتیبِ کلام یہ ہے کہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مرتبہ بلند اور شانِ بندگی کا ذکر کیا گیا ہے ، پھر بتایا گیا ہے کہ ان کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا پھر ان کی یہ شان بندگی دکھائی گئی ہے کہ جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا گیا تو وہ فوراً ہی پانے لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر انہوں نے اپنی اس بات سے رجوع کر لیا جس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے ۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ ان دونوں قصوں سے بیک وقت دو باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ اس کے بے لاگ محاسبے سے انبیا ء تک نہیں بچ سکے ہیں ، تابدیگراں چہ رسد۔ دوسرے یہ کہ بندے کے لیے صحیح رویہ قصور کر کے اکڑنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جس وقت بھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت وہ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے ۔ اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی لغزشوں کو محض معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اور زیادہ الطاف و عنایات سے نوازا۔ |