اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۳

اگر ص کی وہ تاویل قبول کی جائے جو ابن عباس اور ضحاک نے بیان کی ہے تو اس چملے کا مطلب یہ ہو گا کہ ’’ قسم ہے اس قرآنِ بزرگ، یا اس نصیحت سے لبریز قرآن کی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچی بات پیش کر رہے ہیں ، مگر جو لوگ اندار پر جمے ہوئے ہیں وہ دراصل ضد اور تکبر میں مبتلا ہیں ۔‘‘ اور اگر  ص  کو ان حروف مقطعات میں سے سمجھا جائے جن کا مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، تو پھر قسم کا جواب محذوف ہے جس پر ’’بلکہ ‘‘ اور اس کے بعد کا فقرہ خود روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی پوری عبارت پھر یوں ہو گی کہ ’’ ان منکرین کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو دین ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی خلل ہے ۔ یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سامنے اظہار حق میں کوئی کوتاہی کی ہے ، بلکہ اس کی وجہ صرف ان کی جھوٹی شیخی، ان کی جاہلانہ نحوست اور ان کی ہٹ دھرمی ہے ، اور اس پر یہ نصیحت بھرا قرآن شاہد ہے جسے دیکھ کر ہر غیر متعصب آدمی تسلیم کرے گا کہ اس میں فہمائش کا حق پوری طرح ادا کر دیا گیا ہے ‘‘