اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۸۲

 یعنی جب حضرت یونسؑ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور وہ ایک بندہ مومن و قانت کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اُگل دیا ۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونسؑ پر سایہ کرتی ، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا۔

اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے ۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں اس نام نہاد عقلیت کے گڑھ (انگلستان) کے سواحل سے قریب ایک واقعہ پیش آ چکا ہے جو ان کے دعوے کی تردید  کر دیتا ہے ۔ اگست 1891ء میں ایک جہاز (Sta r the East) پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے ۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو 20 فیٹ لمبی ، 5 فیٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی تھی، سخت زخمی کر دیا۔ مگر اس سے جنگ کرتے ہوئے جیمز بارٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنگھوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا  اور پھر طویل جدوجہد کے بعد جب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے 60 گھنٹے رہا تھا (اردو ڈائجسٹ، فروری 1964ء )۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟