اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۷

اس مضمون کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس وقت عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے پیشن گوئیاں کر رہے تھا، غیب کی خبریں دے دہے تھے ، گم شدہ چیزوں کے پتے بتا رہے تھے ، اور لوگ اپنے اگلے پچھلے حال دریافت کرنے کے لیے ان سے رجوع کر رہے تھے ۔ ان کاہنوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جن اور شیاطین ان کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لا لا کر دیتے ہیں ۔ اس ماحول میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ نے قرآن مجید کی آیات سنانی شروع کیں جن میں پچھلی تاریخ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی خبریں دی گئی تھیں ، اور ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایک فرشتہ یہ آیات میرے پاس لاتا ہے ، تو آپ کے مخالفین نے فوراً آپ کے اوپر کاہن کی پھبتی کس دی اور لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہاں کا تعلق بھی دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے ہے جو عالم بالا سے کچھ سن گن لے کر ان کے پاس آ جاتا ہے اور یہ اسے وحی الہٰی بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔ اس الزام کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ حقیقت ارشاد فرما رہا ہے کہ شیاطین کی تو رسائی ہی عالم بالا تک نہیں ہو سکتی ۔ وہ اس پر قادر نہیں ہیں کہ ملاء اعلیٰ (یعنی گروہ ملائکہ) کی باتیں سن سکیں اور لا کر کسی کو خبریں دے سکیں ۔ اور اگر اتفاقاً کوئی ذرا سی بھنک کسی شیطان کے کان میں پڑ جاتی ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے لے کر نیچے آئے ، ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ سے کائنات کا جو عظیم الشان نظام چل رہا ہے وہ شیاطین کی در اندازی سے پوری طرح محفوظ ہے ۔ اس میں دخل دینا تو در کنار، اس کی معلومات حاصل کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 500 تا 502)