اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر٦۷

 یہاں پہنچ کر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے جن صاحبزادے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنے آپ کو خود اس قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا ، وہ کون تھے ۔ اب سے پہلے اس سوال کا جواب ہمارے سامنے بائیبل کی طرف سے آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ:
’’خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہام ـــــ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔‘‘ (پیدائش ، 22:1۔2)
اس بیان میں ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی قربانی مانگی تھی، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اکلوتے تھے ۔ حالانکہ خود بائیبل ہی کے دوسرے بیانات سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسحاق اکلوتے نہ تھے ۔ اس کے لیے ذرا بائیبل ہی کی حسب ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں :
’’اور ابرام کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔اور ساری نے ابرام سے کہا کہ دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جا، شائد اس سے میرا گھر آباد ہو۔ اور ابرام نے  ساری کی بات مانی۔ اور ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہو گئے تھے جب اس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور  وہ حاملہ ہوئی۔‘‘(پیدائش، 16:1۔3)
’’خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا پیدا ہو گا ۔ اس کا نام اسمٰعیل رکھنا‘‘ (16:11)
’’جب ابرام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا‘‘(16:16)
اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ ساری جو تیری بیوی ہے ــــــ اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ـــــــ تو اس کا نام اضحاق رکھنا ــــــ جو اگلے سال اسی وقت معین پر سارہ سے پیدا ہو گا۔ ــــــــــ تب ابرہام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اور ـــــــ گھر کے سب مردوں کو لیا اور اسی روز خدا کے حکم کے مطابق ان کا ختنہ کیا۔ ابرہام ننانوے برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا اور جب اسماعیل کا ختنہ ہو ا تو وہ تیرہ برس کا تھا(پیدائش 17:15۔25)
اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا(پیدائش، 21:5)
اس سے بائیبل کی تضاد بیانی صاف کھل جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ 14 برس تک تنہا حضرت اسماعیل ہی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے تھے ۔ اب اگر قربانی اکلوتے بیٹے کی مانگی گئی تھی تو وہ حضرت اسحاق کی نہیں بلکہ حضرت اسمٰعیل کی تھی۔ کیونکہ وہی اکلوتے تھے ۔ اور اگر حضرت اسحاق کی قربانی مانگی گئی تھی تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی مانگی گئی تھی۔            
اس کے بعد ہم اسلامی روایات کو دیکھتے ہیں اور ان میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ مفسرین نے صحابہ و تابعین کی جو روایات نقل کی ہیں ان میں ایک گروہ کا قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے ، اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام ملتے ہیں :
حضرت عمر ۔ حضرت علی۔حضرت عبداللہ بن مسعود۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ۔ حضرت ابو ہریرہ ۔ قتادہ۔ عکرمہ ۔ حسن بصری۔ سعید بن جُبیر۔ مجاہد۔ شعبی۔مسروق۔ مکحول ۔ زُہری۔ عطاء۔ مُقاتل۔ سدی۔ کعب اَحبار۔ زید بن اسلم وغیرہم۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل تھا۔ اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام نظر آتے ہیں :
حضرت ابو بکر ۔ حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن عمر۔ حضرت عبداللہ بن عباس۔ حضرت ابو ہریرہ ۔ حضرت معاویہ۔ عکرمہ۔ مجاہد۔ یوسف بن مہران ۔ حسن بصری ۔ محمد بن کعب القرظی ۔ شعبی۔ سعید بن المسیّب ۔ ضحاک ۔ محمد بن علی بن حسین(محمد الباقر)۔ ربیع بن انس۔ احمد بن حنبل وغیرہم۔
ان دونوں فہرستوں کا تقابل کیا جائے تو متعدد نام ان میں مشترک نظر آئیں گے ۔ یعنی ایک ہی بزرگ سے دو مختلف قول منقول ہوئے ہیں ۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس سے عکرمہ یہ قول نقل کرتے ہیں کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے ۔ مگر انہی سے عطاء بن ابی رباح یہ بات نقل کرتے ہیں کہ زعمت الیھود انہ اسحٰق وکذبت الیھود (یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسحٰق تھے ، مگر  یہودی جھوٹ کہتے ہیں ) ۔ اسی طرح حضرت حسن بصری سے روایت یہ ہے کہ وہ حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے قائل تھے ۔ مگر عمرو بن عُبید کہتے ہیں کہ حسن بصری کو اس امر میں کوئی شک نہیں تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے جس بیٹے کو ذبیح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔
اس اختلافِ روایات کا نتیجہ یہ ہو ہے کہ علماء اسلام میں سے بعض پورے جزم و وثوق کے ساتھ حضرت اسحٰق کے حق میں رائے دیتے ہیں ، مثلاً بن جریر اور قاضی عیاض۔ اور بعض قطعی طور پر حکم لگاتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل تھے ، مثلاً ابن کثیر ۔اور بعض مذبذب ہیں ، مثلاً جلال الدین سیوطی۔ لیکن اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ امر ہر شک و شبہ سے بالا تر نظر آتا ہے کہ حضرت اسماعیل ہی ذبیح تھے ۔ اس دے دلائل حسب ذیل ہیں :

1)۔ اوپر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت حضرت ابراہیم نے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا کی تھی اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی۔ فحوائے کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ دعا اس وقت کی گئی تھی جب آپ بے اولاد تھے ۔ اور بشارت جس لڑکے کی دی  گئی وہ آپ کا پہلونٹا بچہ تھا۔ پھر یہ بھی قرآن ہی کے سلسلہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہو ہی بچہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا اشارہ فرمایا گیا۔ اب یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے پہلوٹے صاحبزادے حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحٰق ۔ خود قرآن مجید میں صاحبزادوں کی ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ (ابراہیم۔آیت 39)
2)۔ قرآن مجید میں جہاں حضرت اسحٰق کی بشارت دی گئی ہے وہاں ان کے لیے غلامِعلیم (علم والے لڑکے ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ فَبَشَّرُوْہُ بِغُلَا مٍ عَلِیْمٍ (الذاریات ۔28)۔ لَا تَوْ جَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ (الحجر۔ 53)۔ مگر یہاں جس لڑکے کی بشارت دی گئی ہے اس کے لیے غلام حَلیم(برد بار لڑکے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو صاحبزادوں کی دو نمایاں صفات الگ الگ تھیں ۔ اور ذبح کا حکم غلام علیم کے لیے نہیں بلکہ غلام حلیم کے لیے تھا۔
3)۔ قرآن مجید میں حضرت اسحٰق کی پیدائش کی خوش خبری دیتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ خوشخبری بھی دے دی گئی تھی کہ ان کے ہاں یعقوبؑ جیسا بیٹا پیدا ہو گا۔ فَبَشَّرْ نَا ھَا بِاِ سْحٰقَ یَعْقُوْبَ (ہود۔71) اب ظاہر ہے کہ جس بیٹے کی پیدائش کی خبر دینے کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جاچکی ہو کہ اس کے ہاں ایک لائق لڑکا پیدا ہو گا ، اس کے متعلق اگر حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا جا تا کہ آپ اسے ذبح کر رہے ہیں ، تو حضرت ابراہیم اس س کبھی یہ نہ سمجھ سکتے تھے کہ اس بیٹے کو قربان کر دینے کا اشارہ فرمایا جا رہا ہے ۔ علامہ ابن جریر اس دلیل کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ممکن ہے یہ خواب حضرت ابراہیمؑ کو اس وقت دکھایا گیا ہو جب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوبؑ پیدا ہو چکے ہوں ۔ لیکن درحقیقت یہ اس دلیل کا نہایت ہی بودا جواب ہے ۔ قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘ جب وہ لڑکا باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے  کے قابل ہو گیا ‘‘ تب یہ خواب دکھایا گیا تھا ۔ ان الفاظ کو جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر پڑھے گا اس کے سامنے آٹھ دس برس کے بچے کی تصویر آئے گی۔ کوئی شخص بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ جو ان صاحب اولاد بیٹے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں گے ۔
4)۔ اللہ تعالیٰ سارا قصہ بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘ ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی بیٹا نہیں ہے جسے ذبح کرنے کا اشارہ کیا گیا تھا۔ بلکہ پہلے  کسی اور بیٹے کی بشارت دی گئی۔ پھر جب وہ باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ پھر جب حضرت ابراہیم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تب ان کو ایک اور بیٹے اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی ۔ یہ ترتیب واقعات قطعی طور پر فیصلہ کر دیتی ہے کہ جن صاحبزادے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ حضرت اسحاق نہ تھے ، بلکہ وہ ان سے کئی برس پہلے پیدا ہو چکے تھے ۔ علامہ ابن جریر اس صریح دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ پہلے صرف حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ پھر جب وہ خدا کی خوشنودی پر قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے تو اس کا انعام اس شکل میں دیا گیا کہ ان کے نبی ہونے کی خوشخبری دی گئی ۔ لیکن یہ ان کے پہلے جواب سے بھی زیادہ کمزور جواب ہے ۔ اگر فی الواقع بات یہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یوں نہ فرماتا کہ ’’ ہم نے اس کو اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘۔ بلکہ ہوں فرماتا کہ ہم نے اس کو یہ بشارت دی کہ تمہارا یہی لڑکا ایک نبی ہو گا صالحین میں سے ۔
معتبر روایات سے  یہ ثابت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانے تک محفوظ تھے ۔ بعد میں جب حجاج بن یوسف نے حرم میں اب زبیر کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا تو وہ سینگ بھی ضائع ہو گئے ۔ ابن عباس اور عامر شعبی دونوں اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہیں نے خود خانہ کعبہ میں یہ سینگ دیکھے ہیں (ابن کثیر )۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی کا یہ واقعہ شام میں نہیں بلکہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا، اور حضرت اسماعیل کے ساتھ پیش آیا تھا، اسی لیے تو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ میں اس کی یاد گار محفوظ رکھی گئی تھی۔
6)۔ یہ بات صدیوں سے عرب کی روایات میں محفوظ تھی کہ قربانی کا یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔  اور یہ صرف روایت ہی نہ تھی بلکہ اس وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تم مناسک حج میں یہ کام بھی برابر شامل چلا آ رہا تھا کہ اسی مقام منیٰ میں جا کر لوگ اسی جگہ پر جہاں حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کی تھی، جانور قربان کیا کرتے تھے ۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث  ہوئے تو آپ نے بھی اس طریقے کو جاری رکھا ، حتیٰ کہ آج تک حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں ۔ ساڑھے چار ہزار برس کا یہ متواتر عمل اس امر کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے وارث بنی اسماعیل ہوئے ہیں نہ کہ بنی اسحٰق ۔ حضرت اسحٰق کی نسل میں ایسی کوئی رسم کبھی جاری نہیں رہی ہے جس میں ساری قوم بیک وقت قربانی کرتی ہو اور اسے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یادگار کہتی ہو۔
یہ ایسے دلائل ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات قابل تعجب نظر آتی ہے کہ خود امت مسلمہ میں حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کا خیال آخر پھیل کیسے گیا۔ یہودیوں نے اگر حضرت اسماعیلؑ کو اس شرف سے محروم کر کے اپنے دادا حضرت اسحٰق کی طرف اسے منسوب کرنے کو کوشش کی تو یہ ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ لیکن آخر مسلمانوں کے ایک گروہ کثیر نے ان کی اس دھاندلی کو کیسے قبول کر لیا؟ اس سوال بہت شافی جواب علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :
’’حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے ، مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے دراصل یہ سارے اقوال (جو حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے حق میں ہیں )کعب احبار سے منقول ہیں ۔ یہ صاحب جب حضرت عمر کے زمانے میں مسلمان ہوئے تو کبھی کبھی یہ یہود و نصاریٰ کی قدیم کتابوں کے مندرجات ان کو سنایا کرتے تھے اور حضرت عمر انہیں سن لیا کرتے تھے ۔ اس بنا پر دوسرے لوگ بھی ان کی باتیں سننے لگے اور سب رطب و یابس جو وہ بیان کرتے تھے انہیں روایت کرنے لگے ۔ حالانکہ اس امت کو ان کے اس ذخیرۂ معلومات میں سے کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی۔‘‘
اس سوال پر مزید روشنی محمد بن کعب قرظی کی ایک روایت سے پڑتی ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاں یہ سوال چھڑا کہ ذبیح حضرت اسحاق تھے یا حضرت اسماعیل۔ اس وقت ایک ایسے صاحب بھی مجلس میں موجود تھے جو پہلے یہودی علماء میں سے تھے اور بعد میں سچے دل سے مسلمان ہو چکے تھے ۔ انہوں نے کہا،’’ امیرالمومنین ، خدا کی قسم وہ اسمٰعیل ہی تھے ، اور یہودی اس بات کو جانتے ہیں ، مگر وہ عربوں سے حسد کی بنا پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسحٰق تھے ‘‘(ابن جریر)۔ ان دونوں باتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ یہودی پروپیگنڈا کا اثر تھا جو مسلمانوں میں پھیل گیا، اور مسلمان چونکہ علمی معاملات میں ہمیشہ غیر متعصب رہے ہیں ، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہودیوں کے ان بیانات کو، جو وہ قدیم صحیفوں کے حوالہ سے تاریخی روایات کے بھیس میں پیش کرتے تھے ، محض ایک علمی حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا اور یہ محسوس نہ کیا کہ اس میں علم کے بجائے تعصب کار فرما ہے ۔