اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۵۳

 سورہ انبیا ء (آیت 69) میں الفاظ یہ ہیں ۔ قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْ داً  وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا،
اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے )۔ اور سورہ عنکبوت (آیت  24) میں ارشاد ہوا ہے
فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ، (پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا تھا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا۔ آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا‘‘ اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنا  چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے ۔ بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے ، اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم  علیہ السلام کی بر تری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے ، بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں ۔ اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے ۔