اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۲

یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے ، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے بُرے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں ، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے  آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے ، یہ سب چیزیں اس با ت پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا ’’ اِلٰہ‘‘ صرف ایک ہی ہے ۔
’’اِلٰہ‘‘ کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے ۔ یہاں الٰہ ہ لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں ۔ اسی بناپرہم نے ’’ اِلٰہ‘‘ کا ترجمہ’’ معبود حقیقی‘‘ کیا ہے ۔