اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر١

مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان تینوں گروہوں سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں ۔ اور یہی تفسیر حضرات عبداللہ بن مسعود، ابن عباس ، قَتَادہ، مسروق ، سعید بن جُبیر ، عکرمہ ، مجاہد، سدی، ابن زید اور ربیع بن انس سے منقول ہے ۔ بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیریں بھی کی ہیں ، مگر موقع و محل سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے ۔
اس میں ’’ قطار در قطار صف باندھنے ‘‘ کا اشارہ اس طرف ہے کہ تمام فرشتے جو نظام کائنات کی تدبیر کر رہے ہیں ، اللہ کے بندے اور غلام ہیں ، اس کی اطاعت و بندگی میں صف بستہ ہیں اور اس کے فرامین کی تعمیل کے لیے ہر وقت مستعد ہیں ۔ اس مضمون کا اعادہ آگے چل کر پھر آیت 165 میں کیا گیا ہے جس میں فرشتے خود اپنے متعلق کہتے ہیں وَاِنَّا لَنَحْنُ اصَّا فُّوْنَ۔
’’ڈانٹنے اور پھٹکارنے ‘‘ سے مراد بعض مفسرین کی رائے میں یہ ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ہانکتے اور بارش کا انتظام کرتے ہیں ۔ اگر چہ یہ مفہوم بھی غلط نہیں ہے ، لیکن آگے کے مضمون سے جو مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے جو نا فرمانوں اور مجرموں کو پھٹکارتا ہے اور اس کی یہ پھٹکار صرف لفظی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں پر وہ حوادثِ طبیعی اور آفات تاریخی کی شکل میں برستی ہے ۔
’’کلام نصیحت سنانے ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں وہ بھی ہیں جو امر حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے تذکیر کی خدمت انجام دیتے ہیں ، حوادثِ زمانہ کی شکل میں بھی جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے  ہیں ، اور ان تعلیمات کی صورت میں بھی جو ان کے ذریعہ سے انبیاء پر نازل ہوتی ہیں ، اور ان الہامات کی صورت میں بھی جو ان کے واسطے سے نیک انسانوں پر  ہوتے ہیں ۔