اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۵۳

یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ’’ عبادت ‘‘ کو اطاعت کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی تشریح کر چکے ہیں )ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات 134۔398۔577۔ 578۔586۔ جلد دوم، صفحات 189۔482۔483۔ جلد سوم، صفحات 31۔69۔656۔جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ 63) اس  سلسلہ میں وہ نفیس بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : لَا تَعْبُدُو الشَّیطٰن  کے معنی ہیں لا تطیعوہ (اس کی اطاعت نہ کرو)۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی ممنوع ہے ۔ لہٰذا طاعت عبادت ہے ‘‘۔ اس کے بعد امام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عبادت بمعنی طاعت ہے تو کیا آیت اَطِیْعُو االلہَ وَاَطِیْوُاا لرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ : ’’ ان کی اطاعت جبکہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اسی کی اطاعت ہو گی۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو سجدہ کیا اور یہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت  نہ تھی۔ امراء کی طاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہو گی جب کہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جن میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے ‘‘۔ پھر فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تمہیں کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں۔ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے ، اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس کے شیطان کی عبادت کی۔ اسے طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت نہ ہو تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے ۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے ‘‘۔ آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں :’’ مگر شیطان کی عبادت کے راتب مختلف ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے  کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے ۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سے مغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے ۔ کچھ اور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹھنڈے دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ج 7۔ ص 103۔104)