اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۴۰

 پچھلی نشانیوں کا ذکر دلائل توحید کی حیثیت سے کیا گیا تھا، اور اس نشانی کا ذکر یہ احساس دلانے کے لیے  فرمایا گیا ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر تصرف کے جو اختیارات بھی حاصل ہیں وہ اللہ کے دیے  ہوئے  ہیں، اس کے اپنے حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں، اس کے  اپنے معلوم کیے ہوئے نہیں ہیں۔ انسان کا اپنا بل بوتا یہ نہ تھا کہ اپنے زور سے وہ ان عظیم طاقتوں کو مسخر کرتا اور نہ اس میں یہ صلاحیت تھی کہ خود اسرارِ فطرت کا پتہ چلا لیتا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکتا۔ پھر جن قوتوں پربھی اللہ نے اس کو اقتدار عطا کیا ہے ان پر اس کا قابو اسی وقت تک چلتا ہے جب تک اللہ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے مسخر ہیں۔ ورنہ جب مرضی الٰہی کچھ اور ہوتی ہے تو وہی طاقتیں جو انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں، اچانک اس پر پلٹ پڑتی ہیں اور آدمی اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل بے بس پاتا ہے ۔ اس حقیقت پر متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحری سفر کے معاملہ کو محض بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔ نوع انسانی پوری کی پوری طوفان میں ختم ہو جاتی اگر اللہ تعالیٰ کشتی بنانے کا طریقہ حضرت نوحؑ کو نہ سُجھا دیتا اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اس میں سوار نہ ہو جاتے ۔ پھر نوع انسانی کے لیے تمام روئے زمین پر پھیلنا اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ سے کشتی سازی کے اصولوں کا علم پاکر لوگ دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرنے  کے لائق ہو گئے مگر اس  ابتدا سے چل کر آج کے عظیم الشان جہازوں کی تعمیر تک انسان نے جتنی کچھ ترقی کی ہے اور جہاز رانی کے فن میں جتنا کچھ بھی کمال حاصل کیا ہے اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ  نہیں کر سکتا کہ دریا اور سمندر، سب اس کے قابو میں آ گئے ہیں اس ان پر اسے مکمل غلبہ حاصل ہو گیا ہے ۔ آج بھی خدا کا پانی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور جب وہ چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت اس میں غرق کر دیتا ہے ۔