اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۳۳

 ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخر کار ٹھہر جانا ہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھہر جائے گا۔ اس آیت کا صحیح مفہوم انسان اسی وقت متعین کر  سکتا ہے جب کہ اسے کائنات کے حقائق کا ٹھیک ٹھیک علم حاصل ہو جائے ۔ لیکن انسانی علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے اور آج جو کچھ اسے بظاہر معلوم ہے اس کے بدل جانے کا ہر وقت امکان ہے ۔ سورج کے متعلق قدیم زمانے کے لوگ عینی مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ پھر مزید تحقیق و مشاہدہ کے بعد یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے اور نظام شمسی کے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ لیکن یہ نظریہ بھی مستقل ثابت نہ ہوا۔ بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت (Fixed Stare) کہا جاتا ہے ، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے ۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کیلو میٹر (تقریباً 12 میل) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے ۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، لفظ "اسٹار"۔ اور لفظ "سن")۔