اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۳۰

 یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے ۔ اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے ، یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے ، یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے ، یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں، درباریوں منہ چڑھے مصاحبوں، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان ہٹ کر رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پید ہی نہ ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ  تعالیٰ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔