اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۲

 اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں  ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی۔ بلکہ اس کی  وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ’’ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو‘‘ یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر اس بات پر قرآن قسم کھائی گئی ہے ، اور قرآن کی صفت میں لفظ’’ حکیم ‘‘ استعمال کیا گیا  ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے ۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے ۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادِر نہیں ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو جانتے ہیں وہ ہر گز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے  ہیں، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں۔ (اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات 272 تا 274۔  285 تا 286۔ 641 تا 643 جلد سوم، صفحات 317 تا 318۔ 476۔ 602۔ 639 تا 642۔ 665 تا 670۔ 711 تا 713۔ 724 تا 728۔ 730 تا 732)