اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر١۴

 اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع ہیں ان  کی سجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے ۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْ اھٰذِہ مِنْ عِنْدِ کَ، ’’ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ‘‘ (النساء:77)۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں۔ قوم تمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ، ’’ ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے ۔‘‘ (النمل : 47) اور یہی رویّہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَ ا جَآءَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَا لُوْ الَنَا ھٰذِہ وَاِنْتُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَیَّرُ وْ بِمُسٰی وَمَنْ مُعَہٗ۔ ’’ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے ، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ‘‘ (الا عراف: 130)