اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر١١

دوسرے الفاظ میں ا ن کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے ۔ یہی خیال کفارِ مکہ کا بھی تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں :
وَقَا لُوْا مَلِ ھٰذَا الرَّسولِ یَأکُلُ الطَّعَمَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۔(الفرقان:7)
وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔
وَاَسَرُّواالنَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَٓا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَأ تُوْنَ السِّحٰرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ (الانبیاء۔3)
اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟
قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جَہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا:
مَا ھٰذَآاِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآءَاللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَہً۔ مَا سَمِعْنَا بھِٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا لْاَوَّلِیْنَ۔ (المومنون : 24)۔
یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے ۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی (کہ انسان رسول بن کر آئے )۔
قوم عاد نے یہی بات حضرت ہودؑ کے متعلق کہی تھی:
مَا ھٰذَآاِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَأ کُلُ مِمَّ تَأ کُلُوْنَ مَنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَه وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًامِثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًالَّخٰسِرُوْنَ۔(المومنون :33۔34)۔
یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر ہی جیسا۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے ۔
قوم ثمود نے حضرت صالحؑ کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ:
اَبَشَراً مِّنَّ وَ احِداً نَّتَّبِعُہٗ o (القمر:24)
کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کر لیں۔
 اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا، اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا، ’’ تم کچھ نہیں ہو مگر پ، جیسے بشر۔’‘ اور انبیاء نے اس کو جواب دیا کہ، اِنْ نَحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ تَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ  مِنْ عِبَادِہ۔ واقعی  ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ‘‘ (ابراہیم:10۔11)
اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے :
اَلَمْ یَأ فِکُمْ نَبَؤُ االُذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ قَبْلُ فَذَا قُوْ ا وَبَا لَا اَ مْر، ھِمْ وَلَھُمْ عَذَاب ٌ اَلِیْمٌه  ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ  کَا نَتْ تَـأ تِیْہِمْ رُسُلھُُمْ بِا لْبَیِّنٰتِ فَقَا لُوْ ا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُا وَفَوَ لَّوْا۔  (التغابن: 6)
کیا اِنہیں اسن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیا کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا ’’ کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ‘‘ ؟ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے ۔
وَمَا مَنَعَ النَّا سَ اَنْ یُّؤ مِنُوْ ا اِذْ جَآ ءَ ھُمُ الْھُد یٰ اِلَّٓا اَنْ قَا لُوْا اَبَعَثَ اللہُ بَشَراً رَّسُوْلاً۔ (بنی اسرائیل : 94)۔
لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا’’ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا‘‘؟
پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کوئی فرشتہ، یا بشریت سے بالا تر کوئی ہستی :
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَلاً جُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْآاَھْلَ الَّذِکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ه وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَداً لاَّ یَأ کُلُوْنَالطَّعَمَوَمَا کَا نُوْ ا خٰلِدِیْنَ o (الانبیاء : 7۔8)
ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے ۔اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے ۔
وَمَٓا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّٓا اَنَّھُمْ لَیَأ کُلُوْنَ الطَّعَمَ وَیَمْشُوْنَ فِیالْاِ سْوَقِ (الفرقان:20)۔
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔
قُلْ لّوْکَا نَ فِیالْاَ رْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّ لْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَالسَّمَآءِ مَلَکً رَّسُوْلًا o (بنی اسرائیل:95)
اے نبی، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ۔