اس رکوع کو چھاپیں

سورة فاطر حاشیہ نمبر۵١

 اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجت ملے گی، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہوگا۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں، اس کی بندگی و عبادت میں، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں، اپنا مال، اپنے اوقات، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتے، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں۔