اس رکوع کو چھاپیں

سورة فاطر حاشیہ نمبر۳۹

 ’’ بوجھ‘‘ سے مراد اعمال کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے  ہاں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اور ہر ایک پر صرف اس کے  اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ اور نہ یہی ممکن کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اور اسے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس کے  جرم میں پکڑ وا دے۔ یہ بات یہاں اس بنا پر فرمائی جا رہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھا ان سے ان کے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو، عذاب ثواب ہماری گردن پر۔