اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۵۹

 اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے۔ مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے۔