اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۴۳

 اس فقرے میں حکمت تبلیغ  کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ کو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے  بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہ دینا حق گوئی کے اعتبار  سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف  گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے  گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اللہ کے  رسولؐ چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی، اس سوال و جواب کے بعد اب  تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے  جو رزق دینے والا ہے، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو  جو رزق دینے والے نہیں ہیں۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھیرتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے۔