اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۲۴

 موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام  چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں کیں گھرا ہوا تھا، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا۔ اس کی جانشینی کے تھوڑ ی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل(یعنی جِنوں ) کو حضرت سلیمانؑ نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو وے نکل گئے۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِن  یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟
پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے، اور اس گروہ کے غیب سے نا واقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمانؑ کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے، حالاں کہ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں۔ لیکن جو لوگ مادّہ پرست دنیا کے سامنے جِن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مُصر ہیں۔
قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے :
وَجَعَلُو لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم۔ (الانعام، 100)
اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
وَجَعَلُو  ا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا۔ (الصّٰفّٰت۔ 158)
اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی  تعلق تجویز کر لیا۔
وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِ جَالٍ مِّنَ الْجِنِّ۔ (الجن۔6)
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔

انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے  اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے  ہو  حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں (مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر 63 ملاحظہ ہو)