اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر١۴

 اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص 595 تا 598)