اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر١۰

 قریش  کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول  جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو (معاذ اللہ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے، یا پھر یہ منون ہے۔ لیکن یہ مجنون والی بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے۔