اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۹۵

 یہ اُس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحبِ خانہ گھر میں ہے یا نہیں۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص ، خواہ سہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا۔