اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۸۷

 یہ دراصل جواب ہے اُن لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں ، مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب ؓ سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چار بیویاں موجود تھیں۔ ایک حضرت سودہؓ جن سے  ۳ قبلِ ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا۔ دوسری ، حضرت عائشہؓ جن سے نکاح تو ۳ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر انکی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی ، تیسری ، حضرت حفصہؓ جن سے شعبان ۳ ھجری میں آپ کا نکاح ہوا۔ اور چوتھی ، حضرت اُم سَلمہ ؓ جنہیں حضورؐ نے شوال ۴ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا۔ اس طرح حضرت زینب ؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اُس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبیؐ ، تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس جوان کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں۔
اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دِلوں میں مخالفینِ اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے ، اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی بے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا ء کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے۔