اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۸۵

یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نِکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کی لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلامِ عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن رااغت اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ
اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاسل للجماع ثم استعیر للعقد۔’’ لفظ نکاح کی اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘ اِس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان ، یا دُنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اُسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجزو استعارے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دُنیا کی ہر زنان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔
جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے ، ان میں نکاح ایک اصلاحی لفظ ہے جس سے مُراد یا تو مجرد عقد ہے ، یا پھر وطی بعدِ عقد۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح۔