یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نِکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کی لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلامِ عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن رااغت اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ |