اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۵١

 اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے ،جس کے دو معنی ہیں : ’’ یاد رکھو ‘‘ اور’’ بیان کرو‘‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو،تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس لیے تمہاری ذمّہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو ، جو کچھ تم سُنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسے آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔
       اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مُراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ کگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آ جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے ، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سُنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سیرتِ پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں  مَا یُتْلیٰ(جو تلاوت کی جاتی ہیں )کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مُراد صرف قرآن ہے ، کیونکہ ’’تلاوت‘‘ کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے اُن منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَتَّبَعُوْ امَا تَتْلُو االشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔’’ اُنہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سُناتے تھے )شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب ا للہ کی آیات سُنانے کے لیے   اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔