اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١۲

یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں ، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں ، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں ، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں ، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں         باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں ، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں ، اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔
اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ  لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔