اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١١۹

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی‘‘۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی ، انہی کی بدولت بنی ، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس مُحسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسبِ ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے :
      کتاب خروج۔۵:۲۰۔۲۱۔۱۴ : ۱۱۔۱۲۔۳۔۱۷:۳۔۴
      کتاب گنتی۔ ۱۱:۱۔۱۵۔۱۴: ۱۔۱۰۔۱۶ مکمّل۔۲۰:۱۔۵
       قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کُشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو، ورنہ پھر اُسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔
      یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا ’’احمدؐ نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔‘‘ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضورؐ سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہٗ اُوذی باکثر من ھٰذافَصَبَر۔’’اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا‘‘ (مُسند ، احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)