دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی‘‘۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی ، انہی کی بدولت بنی ، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس مُحسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسبِ ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے : |