دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نسیب ہوئی ہے ، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرہ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے ، اس شخص نے تمہیں اُٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے ، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی کوئی بُرائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیرِ مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے ربِّ دوجہاں ! جو طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں ، تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دُنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔ |