اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١۰۷

 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نسیب ہوئی ہے ، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرہ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے ، اس شخص نے تمہیں اُٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے ، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی کوئی بُرائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیرِ مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے ربِّ دوجہاں ! جو طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں ، تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دُنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔
اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ۔ دوسرے سَلِّمُوْ اتَسْلِیْماً
صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے ص،لہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں۔ ایک ، کسی پر مائل ہونا، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اُس پر جھُکنا۔ دوسرے ، کسی کی تعریف کرنا۔ تیسرے ، کسی کے حق میں دُعا کرنا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں ی میں نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ اللہ کا کسی اور وے دُعا کرنا قطعاً نا قابل تصوّر ہے۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان ، تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا۔ ا س میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا۔مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دُعائے رحمت کا مفہوم بھی۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہو علیہ و سلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ ، ان کی مدح و ثنا کرو، اور ان کے لیے دُعا کرو۔
سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے۔ ایک، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں سَلِّمُوْ ا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دُعا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دِل و جان سے ان کا سا تھ دو ، اُن کی مخالفت سے پرہیز کرو، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔
یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدّد صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، سلام کا طریقہ تو آپؐ ہمیں بتا چکے ہیں (یعنی نماز میں السّلام علیک ایّھا النبی وراحمۃاللہ و برکاتۃٗ  اور ملاقات کے وقت  السّلام علیک یا رسول اللہ کہنا)مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟اس کے جوا ب میں حضورؐ نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :
کعب بن عجُر ہؓ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھو ڑے تھو ڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجر ؓ سے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ؒ ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔
ابن عباسؓ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے (ابن جریر)
      ابو ُحمید سا عدی ؓ: اللہم صلی علی محمد وازاجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبرک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کا بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید (مالک ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ،،نسائی ، احمد ، ابن حبان، حاکم )
      ابُو مسعود بدریؓ: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍوعلیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارک علیٰ ابراھیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید( مالک، مسلم ، ابوداود ، ترمذی ، نَسائی، احمد، ابن جریر، ابن حبان ، حاکم)
        ابو سعیدخُدری ؓ : اللہم صل علی محمد عبدک ورسولک کما صلیت علی ابراھیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما برکت علی ابرھیم (احمد بخاری نسائی ، ابن ماجہ )
        ابو ہریرہ ؓ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و برکت علی ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید (نسائی )
       طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم انک حمیدٌ مجید (ابن جریر)
      یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے :
      اوّلاً ، ان سب میں حضورؐ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا ، تو محمدؐ پر درود بھیج۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی ،اللہ تعلی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھجو ، مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبیؐ نے لو گوں کو یہ بتا یا ہے کہ تم پر ’’صلوٰۃ‘‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ مراتب بلند نہیں کر سکتے۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفع ذکر کیے لیے آپؐ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کر سکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔لہٰذا حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گو یا اللہ کے حضور اپنے اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا ، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
      ثانیاً،حضورؐ کی شان کرم نے یہ گوا را نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں ،
بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریّت کو بھی آپؐ نے شامل کر لیا۔ ازواج اور ذریّت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا آل کا لفظ، تو وہ محض حضورؐ کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں۔ عربی لغت کی رُو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مدد گار اور متبع ہوں ، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں ۱۴ مقامات پر آلِ فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت مو سیٰ ؑ کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ۴۹۔ ۵۰۔آل عمران، ۱۱۔ الاعراف، ۱۳۰۔ المومن، ۴۶) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر نہ ہو ، خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو ، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو ، خواہ وہ حضورؐ کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیر و بھی ہیں۔
      ثالثاً ہر درود جو حضورؐ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپؐ  پر ویسی ہی مہربانی فر مائی جائے جیسی ابراھیم ؑ اور آل ابراہیمؑ  پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ)کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم ؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا ، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذِ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد منشاء یہ کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعلی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مر جع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو ، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔
      یہ امر کہ حضورؐ پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں ا س کا پڑھنا مسنون ہے ، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضورؐ پر درود بھیجنا فرض ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
      امام شافعی ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اُس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے ، اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی۔ صحابہؓ میں سے ابنِ مسعود انصاریؓ ، ابن عمر ؓ اور جابر ؓبن عبداللہ ، تابعین میں سے شَعبِی ، امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا ، اور آخر میں امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ اور جمہور علماء مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود۔
     ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا۔
     ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضورؐ کا نام آئے ، درود پڑھنا واجب ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضورؐ کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے ، درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے۔
     یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں۔ باقی رہی درود کی فضیلت ، اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا ، اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا ، تو اس پر ساری اُمت متفق ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دِل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے احسانات کی بھی ہو گی،اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضورؐ پر درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرتِ درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دینِ محمدؐ سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمتِ ایمان کی کتنی قدر اس کے دِل میں ہے۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ  (احمد و ابن ماجہ)’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے ‘‘من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً   ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔‘‘ اولی الناس بی یومالقیامۃ اکثر ھم علیّ صلوٰۃ(ترمذی)’’قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔‘‘البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ(ترمذی) ’’بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔
      نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا دوسروں کے لیے  اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان  یا  صلّی اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں ، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ    (البقرہ۔ ۱۵۷) خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْ ھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ۔(التوبہ۔ ۱۰۳) ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓعِکَتُہٗ (الاحزاب۔ ۴۳)اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپؐ نے دُعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی ادفیٰ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپؐ فرماتے ہیں۔اللھم صلِّ علیھم۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعل سَلوٰتک ورحمتکعلیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ۔اور مومن کی روح کے متعلق خضرؐ نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیکا وعلیٰ جسدک۔ لیکن  جمہور اُمت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ ’’ میں نے سُنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دُعا پر اکتفا کریں۔‘‘  (روح المعانی)۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضورؐ کے سِوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے۔