اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۵

یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت  ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے ۔ تم خود جانتے کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے ۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے ۔
  واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے ۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے ۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے ۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا ۔ بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے ۔
 یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں ۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت دے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے ۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں ، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے ۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین ، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی  ایک شخص نے شروع کی تھی ۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ کوجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے ، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب  الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل ، ورقہ بن نَو فَل ، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات  کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے ۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی  الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں  بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب  سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵)