اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۳۳

’’عذاب اکبر‘‘ سے مُراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔اس کے مقابلہ میں ’’ عذاب ادنیٰ ‘‘ کا الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مُراد وہ تکلیفیں ہیں جو اِسی دُنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ،اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ،نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ،زلزلے ،سیلاب، وبائیں ،قحط ،فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ،کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ اُن آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آ جائیں اور اُس طرز فِکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اُس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اِنتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دِلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کی کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اُسی کار فرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ،اور نہ کسی جِن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا ، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ۔ ان سے سبق لے کر دُنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے ۔