اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر١۷

یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔’’اُس کی تخلیق کی‘‘ ، ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘،’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘،’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا ۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘،’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘،’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے ۔
کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے ۔ اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں ، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں ، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ اس کے بعد ’’دِل ‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind )ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔