اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر٦

 اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے ۔لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے ۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے ،مثلاً گپ ،خرافات ، ہنسی مذاق ،داستانیں، افسانے اور ناول ، گانا بجانا ، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔
لہو الحدیث ’’ خریدنے ‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں ۔حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے ۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے ۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا ۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے ، ساحر ہے ، شاعر ہے ،مجنوں ہے ۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے ۔ ٹھیرو ، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام ،ج ۱،ص۳۲۰۔۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے ۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے ۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے ۔
لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء،’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ ، حاکم بہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس،جابر بن عبداللہ،مجاہد، عِکرمہ ، سعید بن جُبیر ، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں ۔ ابن ابی جریر ، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمہؓ باہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’ مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے ۔‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے ، اور ان کی قیمت حرام ہے ۔‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں ۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے )۔