اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر١۳

 اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے ، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے ۔