اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۵۰

 اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع  اور اس کے غضب کا خوف، دونوں قلب کے افعال ہیں۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازمًا کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ  فلاں شخص واقعی اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اِس رجوع و تقویٰ کی کیفیت کو ایک عملی مُمارَست کے ذریعہ سے پے در پے نشو و نما نصیب ہوتا چلا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اُس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فوراً ہی اِس جسمانی عمل، یعنی اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی۔ اُس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی  خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان  ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کر تا جاتا  ہے، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک  کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہو تا  جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کر نے کے لیے ہر روز پانچ  وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے۔ کیونکہ دوسرا  جو عمل بھی ہو، اُس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف  مواقع پر آتی ہے۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائمًا کرنا ہوتا ہے، اور  اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق ، جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے ، آدمی کو بار بار دُہرانا ہوتا ہے تاکہ و ہ اسے بھولنے نہ پائے۔ مزید براں کفار اور اہل ایمان، دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش  چھوڑ کر اطاعتِ رب کی روش اختیار کر لی ہے۔ اہلِ ایمان پر اِس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور  وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے باخبر کر دے۔ کفار پر اِس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہو تی رہے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلوٰۃ ہی سب سےزیادہ موزوں ذریعہ ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ کا یہ حکم مکّۂ معظمہ کے اُس دَور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔ اُس وقت دُور دُور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر  بے معنی ہوتی ، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں، یا اقامتِ صلوٰۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ  ”نظامِ ربوبیت“چلانا ہوتا، جیسا کہ منکرینِ سنت کا دعویٰ ہے ، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اِس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟