اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۲۴

اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے: فجر، مغرب، عصر اور ظہر۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف  کیے گئے ہیں، حسبِ ذیل ہیں:

اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ  غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰ نَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل،       آیت ۷۸)۔
نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔

وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ (ہود۔ آیت ۱۱۴)۔
اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔

وَسَبِّحْ بَحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنَآ یِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ۔ (طٰہٰ۔ آیت ۱۳۰)۔
اور اپنے رب کی  حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے، اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو، اور دن کے کناروں پر۔

ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوالِ آفتاب کے بعد  سے عشاء تک ہیں، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت۔ تیسری آیت میں قبلِ طلوعِ آفتاب سے مراد  فجر اور قبلِ غروب ِ آفتاب سے مراد عصر۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاء دونوں شامل ہیں۔ اور دن کے کنارے تین ہیں، ایک صبح ، دوسرے زوالِ آفتاب، تیسرے مغرب۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے اُن پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض اِن آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کر سکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلّمِ قرآن ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے۔

یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھیر کر منکرینِ حدیث کی اِس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ  ”نماز پڑھنے“ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے ، اور اس  سے مراد نماز پڑھنا نہیں  بلکہ، ”نظامِ ربوبیت“ قائم کرنا ہے۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کونسا نرالا نظام ِ ربوبیت ہے جسے یا تو طلوعِ آفتاب سے پہلے قائم کیا جا سکتا ہے یا پھر زوالِ آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ (اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَا سْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ)۔ اور نظام ِ ربوبیت کی آخر وہ کونسی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کر لے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کر سکتا؟ (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ فَا غْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ)۔ اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالتِ جَنابت میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کر لے اسے  قائم نہیں کر سکتا؟ (لَا تَقْرَبُو ا الصَّلوٰۃَ ۔۔۔۔وَلَا جُنَبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا)۔ اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظام ِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہو گا؟ (اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآ ءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَا مْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ مِّنْہُ )۔ اور یہ کیسا عجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے  کے بجائے آدھا ہی قائم کر لے؟ (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلوٰۃِ)۔ پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے ”نظامِ ربوبیت“ قائم کرتے  رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے”نظامِ ربوبیت قائم“ کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اُٹھ کر دشمن کا مقابلہ  کرنے کے لیے چلا جائے ، اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس  ”نظام ربوبیت“ کو قائم کرنا شروع کر دے (وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلوٰۃَ فَلْتَقُمْطَآ ئِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْ خُذُؤْ ا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآ ئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ)۔ قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں، لیکن منکرینِ حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہو جائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کر سکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں ۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو  اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض  دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کر نا چاہتا ہو۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ ۵۰ بھی ملاحظہ ہو)۔