اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر١۸

یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم، نسل، وطن ، زبان، قبیلہ و برادری، اور معاشی  و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ، اُس روز ٹوٹ جائیں گی، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری جگہ گروہ بندی ہوگی۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہو گا۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اِس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہو گی اور اجتماع بھی۔ اسلام کہتا ہے  کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھے والے ایک امت ہیں، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں ، اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں ، خواہ ان کا تعلق  کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی۔  یہ نہ دنیا میں ایک  مشترک راہِ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہی اور ہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہو سکتاہے۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے  رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھہ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظ ِ مذہب و عقیدہ  ایک قوم بن کر دوسری ایسی  ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے ، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام ِ زندگی  ہو نا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور  دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں۔ یہی تخیل ابو جہل اور ابو لہب  اور  سردارانِ قریش کا تھا، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آکر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کر رہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھہ بندیاں جو تم نے اس دنیا  میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اُسی عقیدے اور نظریۂ حیات اور اخلاق  و کردار کی بنیاد پر ہونے و الی ہے جس پر اسلام دنیا کی اِس زندگی  میں کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہو سکتی ہے۔