اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۸۸

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورۂ یونسؑ م اور سورۂ قصص میں گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  تفسیر سورۂ یونس حاشیہ نمبر ۲۱ و تفسیر سورۂ قصص، حاشیہ نمبر ۶۴ و نمبر ۱۰۹۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ نحل حاشیہ  نمبر ۱۰۷ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۱۰۵، المومنون، حاشیہ نمبر ۶۶، الفرقان، حاشیہ نمبر ۱۲ اور الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۸۴ کا مطالعہ بھی مفید ہو گا)۔

اس آیت میں استدلال کی بنیا د یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اَن پڑھ تھے۔ آپ کے اہلِ وطن اور رشتہ  و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سنِ کہولت تک پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھُلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب و ادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ، اور تمدّن و اخلاق و معیشت  کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اِس اُمّی کی زبان سے  ہو رہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے  اور مطالعہ  و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن اُس کی اُمّیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی نبوت کا  انکار کرنے  کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول  کہا جا سکتا ہو۔