اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۸۳

اِن فقروں میں اللہ تعالیٰ نے خود اُس عُمدہ طریقِ بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغِ  حق  کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ  جس شخص سے تمہیں بحث کرتی ہو اُس کی گمراہی کو بحث کا نقطۂ آغاز نہ بناؤ، بلکہ بات اِس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونسے اجزاء ہیں جو تمہارے اور  اس کے درمیان مشترک ہیں۔ یعنی آغازِ کلام نکاتِ اختلاف سے نہیں بلکہ نکاتِ اتفاق سے ہونا چاہیے، پھر انہی متفق علیہ  امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور ا کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔

اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہلِ کتاب مشرکینِ عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح اِن سب حقیقتوں کو مانتے تھے۔ اِن بُنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑی چیز بنیادِ اختلاف ہو سکتی تھی تو وہ یہ  کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہو ئی کتاب پر ایمان لانے کی اُنہیں دعوت دیتے اور ان کے نہ ماننے  پر انہیں کافر قرار دیتے۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی۔ لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ تمام اُن کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہلِ کتاب کے پاس موجود تھیں اور پھر اُس وحی پر ایمان  لائے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ اس کے  بعد یہ بتانا اہلِ کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا  ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہلِ کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات  اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر ِتسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں  یا ہمارے ہاں۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں ہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اُسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ  دہرائی گئی ہے اور خصوصًا اہلِ کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر  ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۴ – ۱۳۶ – ۱۷۷ – ۲۸۵۔ آلِ عمران ، آیت ۸۴۔ النساء، ۱۳۶ –  ۱۵۰ تا ۱۵۲- ۱۶۲ تا ۱۶۴، الشوریٰ ۱۳۔