اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۷۸

یہ نماز کے بہت  سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مکّہ کے اُس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادّی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت  درکار تھی۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشوونما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی  گئی۔ ایک تلاوتِ قرآن۔ دوسرے اقامتِ صلوٰۃ۔ اس کے بعد اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ اُن برائیوں سے پاک ہو سکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردوپیش اہلِ عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اِس وقت مبتلا ہے۔
غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود اُن لوگوں کے لیے  دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے  اُن کو اُن سب لوگو ں پر زبردست برتری حاصل ہو جاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اُس ناپاک نظام کو، جو اُن برائیوں کو پرورش کرتا ہے، برقرار رکھنے کے لیے اِن پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہوں۔ فحشاء اور منکر  کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت بُرا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ، خواہ وہ عملًا کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اصولًا ان کو بُرا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنیٰ نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے، بدی کے مقابلے  میں نیکی کی قدر  پہچانتے تھے، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخص ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بُری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے  کے اندر کسی ایسی تحریک کا اُٹھنا جس سے وابستہ  ہو تے ہی اُسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہو جائیں ، لا محالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے  عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر اُن لوگوں کا ساتھ دیے  چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہیت کے اُس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے  جو اُن برائیوں کو صدیوں سے پرورش کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم  کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تا کہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کر لیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر و تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دیدے۔
نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا وصفِ لازم ہے ، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے ، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب ہے ، یعنی  یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور مُنکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے ، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے ۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو بُرائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگا نے ممکن ہیں  ان میں سب سے زیادہ کاریگر  بریک نماز ہی ہو سکتی ہے۔ آخر  ا سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ   کی جائے کہ  تُو اِس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے  تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں  تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس خدا کے سامنے پیش  ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کر نی ہو گی۔ پھر اس یاددہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہر نماز کے وقت اِس بات کی مشق کرائی جاتی  رہے کہ وہ  چھُپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔ نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے  اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہو چکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہو جائے تو  اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود  اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکارِ نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہو سکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ  خداوندی کی تمام  شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے ، اس  میں  ذمہ داری کا احساس بیدا کیا جا  رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جا رہی ہے  کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور عَلانیہ ہر حال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں  اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت   موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے  تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی  کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریقِ تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملہ میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاحِ نفس کی  یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح  بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوکستی جو اس کا اثر قبول کرنے  کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر  اس کی تاثیر  کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما  ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے  جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکا لتا چلا جائے تو اس طرح کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لا کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیۂ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے با وجود سوکھتا چلا جا رہا ہے ،اسی طرح بد عمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ  نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بد عمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کر دینے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت کھانا نہیں کھاتا۔

ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ  و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عِمْران بن حُصَین کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء و المنکر فلا صلاۃ لہُ، ” جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے۔“ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباس  حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لم تنھہ صلوٰتہ عن الفحشاء و المنکر لم یزددبھا من اللہ الّا بعد ا، ”جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا۔“ (ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضورؐ سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن  جریر۔ بیہقی)۔ ابن مسعود ؓ سے حضورؐ  کا یہ ارشاد مروی ہے: لا صلوٰۃ لمن لم  یطع الصلوۃ وطاعۃ الصلوٰۃ ان تنہی عن الفحشاء و المنکر، ” اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نےنماز کی اطاعت نہ کی ، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء  و منکر سے رُک جائے“(ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، حسن بصری، قتادہ اور اَعْمَش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں ، جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے ( رُوح المعانی)۔