اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۷۷

خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اُس وقت توڑے جا رہے تھے ، اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا ، ان کا مقابلہ کرنے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر و ثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر  یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں ، کیونکہ یہی  دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبر دست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں  اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا  رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے ، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے۔ نماز کے وصفِ مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کر رہا ہے۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز  کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے  کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یَقْرَ أُ وْنَ القراٰن ولا یجاوز حنا جر ھم، یمرقون من الدین مروق السہم من الر مِیّۃ ۔ ”وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ دین سے اِس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نِکل جاتا ہے۔“(بخاری، مسلم، مؤطّا)۔ درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کر تا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ ا س کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ ما اٰمن بالقراٰن من استحل محارمہ، ”قرآن پر ایمان نہیں  لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لیا۔“ (ترمذی بروایت صُہَیب رومی رضی اللہ عنہ)۔ ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیرکٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔  کیونکہ جو  شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے  اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی  کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے  اسے کیا ہدایات دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ  تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے  میں بہترین طریقے پر یوں واضح  فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ”قرآن  حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف“(مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو ، تو اپنی صفائی میں قرآن پیش کر سکتا ہے کہ میں  نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب  کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل  واقعی اس کے مطابق ہُوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیٔ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہو گی۔ لیکن اگر یہ کتاب  تجھے پہنچ چکی ہو ، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کر لیا ہو کہ تیر ا ربّ تجھ سے کیا چاہتا ہے ، کس چیز کو تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تُو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔ یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کر دے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔