اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۴۴

ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے  ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آگے  بڑھ کر اُن کو ماننے اور اُن کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیمؑ کی صداقت کے قائل ہو گئے ہوں۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیمؑ کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اُس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اُسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرأت نہ کر سکا۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصّے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آخرکار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی (حضرت سارہ) کا ساتھ دیا۔

یہاں ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کردینا ضروری ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوطؑ کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیمؑ کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمتِ ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا  نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہو سکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں  آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوطؑ خداوندِ عالم کو نہ مانتے ہوں، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں۔ بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کر لی۔ ایمان کے  ساتھ جب لام کا  صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت لوطؑ اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے  چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شانِ رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو۔