اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۳۲

یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفتِ خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا ، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے۔ اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے ، اور پھر ایک دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں  لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مر جانے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا  نہیں کر سکتا ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نمل، حاشیہ نمبر ۸۰)۔