اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۲۵

اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ہولناک عقوبت کو یا اس عظیم الشان واقعہ کو بعد والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ لیکن یہاں اور سورۂ قمر میں  یہ بات جس طریقہ سے بیان فرمائی گئی ہے  اس سے متبادر یہی ہو تا ہے کہ وہ نشانِ عبرت خود وہ کشتی تھی  جو پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی  اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی  کہ  اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا  جس کو بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جا ٹِکی ہے۔ سورۂ قمر میں اس کے متعلق فرمایا گیا ہے: وَحَمَلْنَا ہُ عَلیٰ ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍo تَجْرِیْ بَاَ عْیُنِنَا جَزَآءٍ لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o  وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھآ  اٰیَۃً فَھَلْ مِنْ مُّدَّ کِرٍo (آیات ۱۵-۱۳)۔   ” اور ہم نے نوح ؑ کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر ، وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اُس شخص کے لیے جزاء کے طور پر جس کا انکار کر دیا گیا تھا، اور ہم نے اُسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر  ، پس  ہے کوئی سبق لینے والا؟“ سورۂ قمر کی اِس آیت کی تفسیر میں ابن جریر نے قتادہ کی یہ روایت نقل کی ہے  کہ عہدِ صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے تو  انہوں  نے کوہِ جودی پر (اور ایک روایت کی رُو سے باقِرویٰ نامی بستی کے قریب) اس کشتی کو دیکھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتاً فوقتاً یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوحؑ کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انہوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۷۔ ہود ، حاشیہ ۴۶)۔