اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۲۰

”افترا  پردازیوں“ سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں  جو کفار کے اِس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ  ”تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔“ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے۔ ایک یہ کہ جس مذہبِ شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ بر حق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہبِ توحید غلط ہے، اس لیے اُس سے کفر کرنے میں کوئی  خطا نہیں ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں  ہونا ہے اور یہ حیاتِ اُخروی کا تخیّل ، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے، بالکل بے اصل ہے۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے ، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اِس خطا پر تم سے باز پرس ہو گی ، تو چلو تمہاری اس خطا  کو ہم اپنے سر لیتے ہیں، تم ہماری  ذمہ داری پر دینِ محمدؐ کو چھوڑ کر دینِ آبائی میں واپس آجاؤ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں۔ ایک ان کا یہ خیا ل کہ  جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کرے وہ اپنے جرم کی ذمہ داری سے بَری ہو سکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اُٹھا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا   وعدہ  کہ قیامت کے روز وہ اُن لوگوں کی ذمہ داری واقعی اُٹھا لیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم  ہو جائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنّم ان کی آنکھوں کے سامنے ہو گی اُس وقت  وہ ہر گز تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ اُن لوگوں کے  گناہ کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے۔