اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر١۵

یعنی آج  تو وہ اپنی کھال بچانے کےلیے کفاروں میں جا ملا ہے اور اہلِ ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ دینِ حق کو فروغ دینے  کے لیے وہ اپنی نکسیر تک پُھڑوانے کو تیار نہیں ہے ۔ مگر جب اِس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصّہ بٹانے کے لیے آموجود ہو گا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم  تمہارے ہی ساتھ تھے، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں  مانگا کرتے تھے، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابلِ برداشت اذیت یا نقصان ، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمۂ کفر  کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعًا جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اُس مخلص مسلمان میں جو بحالتِ مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے ، اور اُس مصلحت پر ست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ مگر در حقیقت جو چیز ان کے درمیان  زمین  و آسمان کا فرق کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے، بلکہ عملاً بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہل ِ دین کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی کامیابی سے وہ خوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتا ہے ، اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہلِ دین کے ساتھ جا ملے۔ اس کے بر عکس مصلحت پر ست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے ، اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دینِ حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں، تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہلِ دین سے منہ موڑ لیتا ہے ، کفاروں سے رشتہ ٔ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا  جو دین کے سخت خلاف اور اہلِ دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اِس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کر لیتا کہ شاید کسی وقت دینِ حق ہی کا بول بالا ہو جائے۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے  اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہِ حق میں ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین  ادا کرنے میں ذرّہ برابر بُخل نہیں کرتا،  تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر  ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَرَ بَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوْآ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَاِنْ کَانَ لِلْکَافِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْآ اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ  o    (النساء۔ آیت۱۴۱)

”یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کرہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) ۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانو ں سے بچایا؟“